سعودیہ میں دہشت گرد سرگرمیوں کی فنڈنگ کرنے والا اپنے انجام کو پہنچ گیا
احمد بن سعید بن علی الجنبی مسلح بغاوت سمیت کئی سیکیورٹی اہلکاروں کے قتل میں بھی ملوث تھا
سعودی عرب میں دہشت گردوں کی فنڈنگ کرنے والااور ان کے ساتھ مل کر کئی جرائم پیشہ سرگرمیاں انجام دینے والا مجرم اپنے انجام کو پہنچ گیا ہے۔ سعودی وزارت داخلہ کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ سعودی شہری احمد بن سعید بن علی الجنبی کو اس کی ریاست مخالف دہشت گرد سرگرمیوں کے باعث دمام میں سزائے موت دے دی گئی ہے۔
وزارت داخلہ کے مطابق ملزم مملکت میں مسلح بغاوت پھیلانے سمیت کئی تخریبی کارروائیوں میں ملوث تھا۔ احمد بن سعید نے کئی بار سیکیورٹی اہلکاروں پر فائرنگ کی تھی، جس کے نتیجے میں متعدد سیکیورٹی اہلکار جاں بحق ہوئے تھے۔ قطیف میں بھی مجرم سیکیورٹی پٹرولنگ اہلکاروں اور چیک پوسٹوں پر تعینات اہلکاروں کو نشانہ بنا چکا تھا۔
اس کے علاوہ بیرون ملک سے اسلحہ منگوانے اور انہیں محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کی کارروائیوں میں بھی شامل رہا۔
مجرم دہشت گردوں کو تخریبی کارروائیوں کے لیے فنڈز بھی فراہم کرتا تھا۔ اس کی گرفتاری کے بعد فوجداری عدالت نے اس پر مملکت سے بغاوت، انارکی پھیلانے اور قتل جیسے جرائم ثابت ہونے پر موت کی سزا دی تھی۔ اپیل کورٹ اور سپریم کورٹ میں سزا کے خلاف اپیل مسترد ہونے کے بعد ایوان شاہی کی جانب سے سزائے موت کا فرمان جاری کیا گیا ، جس پر عمل درآمد کرتے ہوئے گزشتہ روز مجرم کا سر قلم کر دیا گیا۔
واضح رہے کہ چند روز قبل بھی سعودیہ میں ایک خطرناک مجرم کا سر قلم کر دیا
گیا ہے۔ سعودی وزارت داخلہ کے مطابق سعودی شہری محمد بن ابراہیم الرفاعی داعش تنظیم کا رُکن تھا اور پولیس کو متعدد مقدمات میں مطلوب تھا۔ ایک واردات کے دوران اس نے جازان کے ایک بینک میں گھس کراندھا دھند فائرنگ کی تھی اور وہاں موجود افراد کو یرغمال بھی بنا لیا تھا۔
اس فائرنگ کے نتیجے میں 2 افراد یحییٰ بن احمد شیبان اور عبداللہ بن عبدہ بن محمدبکر جاں بحق ہو گئے تھے اور دو افراد زخمی ہوئے تھے۔ اس واردات کے بعد الرفاعی فرار ہو گیا تھا۔ وہ مملکت میں بدامنی پھیلانے کے ایجنڈے پر کام کر رہا تھا۔ اس مقصد کے لیے اس نے بڑی مقدار میں اسلحہ بھی ذخیرہ کر رکھا تھا۔ پولیس نے بالآخر اس مفرور دہشت گرد کو پکڑ لیاجس کے بعد اس پر قتل اور مملکت میں انتشار پھیلانے کے الزامات کے تحت مقدمہ چلایا گیا۔ الزامات ثابت ہونے کے بعد اسے سزائے موت سنائی گئی تھی۔
Post a Comment